ہاری تو پیا میں تیری بقلم ملیحہ چودھری
قسط 5
.........
دن چڑھا ہمدانی ویلہ میں چہل پہل شروع ہو گئی تھی....."آج سولہویں روزہ تھا..."گرمی کی شدّت سے آج پوری پلٹن خاموش بیٹھی تھی...."مانیہ کی فکر ساری پلٹن کو ہو رہی تھی...."سب اُداس بیٹھے تھے....."مانیہ دن بہ دن کمزور ہوتی جا رہی تھی۔۔۔نعمان کو شکل دکھائے آج سترہ اٹھارہ دن سے زیادہ ہو گئے تھے...."یار انوشے...."ایسا کیسے چلے گا۔۔۔مطلب ہماری آنکھوں کے سامنے یہ سب ہو رہا اور ہم کچھ کر بھی نہیں پا رہے..."میرا دل ہول رہا ہے۔۔۔"مس پرفیکٹ"تو بلکل چپ اور کمزور ہو کر رہ گئی.."اور اپنا نومی تو نظر ہی نہیں آتا..."یار مجھے تو ایسا لگتا ہے.."جیسے آغا جان کی آئی سائٹ ویک ہو گئی ہے.."انکو اپنی بیٹی کی حالت دکھ نہیں رہی ....."کون اتنا بےحس باپ ہوتا ہے۔۔"جو اپنے ہی بچّے کو بلی کا بکرا بنا دیتا ہے..."اور دیکھو تو وہ محترم جناب ہونہار بیٹے"ہمدانی ویلا کے"وہ بھی تو کچھ نہیں کر رہے.....میری تو صرف ایک ہی رائے ہے"اب نومی کو ہی اسٹینڈ لے لینا چاہئے..."کیونکہ ان بڑوں کی آنکھوں پر تو پٹی بندھی ہے..."جو ان کو دیکھ ہی نہیں رہا..."ارمان اپنی بھڑاس نکالتے بولا ..."ہاں تم صحیح بول رہے ہو ہینڈسم۔۔۔"مجھے بھی یہی لگتا ہے..." وہ "گرین ائیر گھوسٹ" تو کچھ نہیں کرنے والا..."پر اس" دبّو" کو سمجھائے کون...؟ وہ نہیں مانتا.."کیونکہ وہ آغا جان سے ڈرتا ہے...."آپی آپ ایک کام کرو جیری بھائی سے بات کرو نہ..."نادیہ نے مشورہ دیا..."اوۓ خوش فہمی.."چپ کر۔۔۔بڑی خوش فہمی پال رکھی ہے نہ.."بڑی آئی جیری بھائی سے بات کا مشورے دینے والی.."اگر انکو کچھ کرنا ہی ہوتا نا وہ اب تک کر چکے ہوتے.."پر نہیں وہ ٹھہرے فرمابردار بیٹے..."ارمان نے نادیہ کو لتاڑا تھا...."ویسے بھائی نادیہ نے کچھ غلط نہیں کہا.."مجھے بھی یہی لگتا ہے..."آپی کو جیری بھائی سے بات کرنی چاہیے۔۔۔۔۔توں تو بلکل شانٹ ہو جا "چشمش"مجھے پتہ ہے.."تیرے تو ٹرین ہے جرّار ہمدانی سے شروع ہوتی ہے.."اور آخر بھی وہی پر ہوتی ہے۔۔۔۔۔اس لیے توں بولے ہی نا تو بہتر ہے..."ارمان آج پورا بھرا بیٹھا تھا..."اس لیے اس نے اپنی بھڑاس شفق پر بھی نکالی ..."کیا ہو گیا ...؟تم تینوں کو چپ بھی کرو..."ایسے لڑنے اور ڈانٹنے سے کام ہو جائے گا.."اور ایک بات بتاؤ تم دونوں.."تمہارے اس جیری بھائی میں آخر کیا ہے...."جو ہر چیز وہی ٹھیک کر سکتے ہے..."کہیں جانا ہو تو جیری کچھ کام ہو تو جیری..."کھیلنا ہو تو جیری،یونیورسٹی سے باہر ٹور پر جاؤ تو جیری۔۔۔۔۔جیری جیری جیری جیری اور بس جیری ہی رہ گئے..."انکے علاوہ بھی اس دنیا میں اور بھی سانس لیتے ہے..."یا پھر وہی انوکھے اس دنیا میں آئے ہے.."کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے..."میں اُنہیں شوٹ کر دوں..."نا بچے گا جیری اور نا ہوگا جیری نامہ" انوشے نے ان سب کو غصے سے گھورتے کہا..."اُسکا انداز ایسا تھا.."اگر جرّار ہمدانی اُسکے سامنے ہوتا تو سچ میں شوٹ کر دیتی.. واہ کیا بات کہی۔۔۔ایک ڈراما ہونا چاہیے۔۔۔۔۔جرتاشہ بولی۔۔۔تُجھے تو ڈرامے اور شادی کے علاوہ سوجھتا کچھ نہیں۔۔۔تو بھی چپ ہی رہے "انوشے کو اُسکے مداخلت ایک آنکھ نا بھائی تھی اس لیے اسکو لتاڑا.."وہ کھڑی ہو کر اندر جانے لگی ۔۔۔"اب کہاں جا رہی ہو تم...؟ ارمان نے اُسکے پیچھے سے آواز دیتے پوچھا ..."جا رہی ہوں اپنی اور مانیہ کی بات کرنے آغا جان سے .."آج میں ضرور بات کر کے ہی دم لوں گی.."آج مانیہ کے ساتھ ہے اور پھر میرے ساتھ تو یہ بچپن سے ہے..."اب مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔۔۔"آج میں ضرور بات کر کے تم لوگوں کو اپنی شکل دکھاؤں گی.."ورنہ نہیں..."وہ ایک حتمی فیصلہ لیتے جانے لگی ..."پاگل ہو کیا...؟ دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا۔۔۔"کیوں آغا جان سے اپنی دُرگت بنوانا چاہتی ہو..."رہنے دو ہم سب اور کوئی راستہ ڈھونڈتے ہے ."جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے..."ارمان اُسکا آگے سے راستہ روکتے بولا ..."ہینڈسم ہٹو سامنے سے ۔۔"یہی ایک راستہ ہے۔۔"میں اپنی بہن کو نہیں دیکھ سکتی اس حالت میں.."میں خود تو برداشت کر رہی تھی..."کیونکہ وہ انوشے شائستہ خلیل تھی...مجھے عادت ہو گئی ہے ان سب کی..."لیکن میں اپنی بہن جیسے دوست کو نہیں دیکھ سکتی اس حالت میں سمجھے..."اب ہٹو سامنے سے..."وہ چلاتے بولی..."آواز اتنی تیز تھی کہ پورچ سے گزرتے جرّرا نے بھی سنی تھی..."اُسکو ایک لمحہ نہیں لگا تھا سمجھنے میں..."کہ یہ کس کی آواز ہو سکتی ہے۔۔"وہ سیدھا پورچ سے لان میں آ گیا..."اورنج دھاریوں دار پٹیالہ شلوار قمیض پہنے گلے میں دوپٹہ ڈالے بالوں کی ہائی پونی باندھے نہایت ہی خوبصورت لگ رہی تھی..."کیا ہو رہا ہے یہاں...؟ اس نےاپنی مغرور بھاری آواز میں اُن سب کے چہروں کو دکھ کر پوچھا...."ایک پل کو وہ شوکد ہو گئی تھی.."پھر اپنے آپ کو سنبھالتی بولی......."اپنی قسمت کا جنازہ نکلتا دیکھ رہے ہے..."دیکھو گے......."اُسنے بھنویں اُچکائے ہر لفظ کو چبا چبا کر بولا... اُسکی بات پر جرّار نے غصّے سے اپنی مُٹھی بند کی اور اس پر ایک نظر غصے سے ڈالتا وہاں سے چلا گیا...."بڑے آئے کیا ہو رہا تھا یہاں..."انوسے نے بھی اسکی نقل اُتارتے اندر لاؤنج کے طرف اپنے قدم بڑھا دیے..."ارادہ آغا جان کے روم میں جانے کا تھا....
***********************
یا اللہ جب وہ شخص میری قسمت میں تھا ہی نہیں تو پھر کیوں تونے مجھے اس سے محبّت کروائی کیوں...؟توں توں جانتا ہے نا محبّت کا درد کتنا جان لیوا ہوتا ہے..."پھر کیوں میرے مولا..."اگر وہ میرے قسمت میں نہیں ہے" تو توں مجھے................."وہ درمیان میں اپنے لفظوں کو ادھورے چھوڑتی زارو قطار رونے لگی تھی..."ظہر کا وقت تھا.."وہ جائے نماز پر بیٹھی اپنے اللہ سے شکایت کر رہی تھی....."ایک وہی تو تھا.."جو اسکی سن سکتا تھا..."اللّٰہ جی آپ کے لیے کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہے..."پلیز اسکو میرا بنا دے۔۔۔۔پلیز میرے اللّٰہ...."اس نے دعا مانگ کر چہرے پر ہاتھ پھیرا اور جائے نماز کو وہی صوفے پر رکھ کر بیڈ پر آ کر لیٹ گئی...."اس کا پورا کمرہ اندھیرا سے گھرا ہوا تھا.."اور ایسے ہی اُسکے اندر بھی اندھیرا تھا.."جس کا اُجالا ناممکن سا لگنے لگا تھا..."لیکن کہتے ہے نا ناممکن کو ممکن ہونے میں وقت نہیں لگتا..."جب اس رب کی مرضی ہو جاتی ہے "تو وہ پل میں ماشہ کو تولے میں بدل دیتا ہے..."بےشک وہ بہت بڑا ہے.....
**********************
وہ آغا جان کے کمرے کے گیٹ پر کھڑی تھی..."وہ آ تو گئی تھی."لیکن اب اُسکی ہمت اندر جانے کی نہیں ہو رہی تھی..."یا اللہ میری مدد کرنا..."اس نے اللہ کا نام لیا"اور دروازے پر دستک دی...."تھوڑی دیر بعد ہی اندر آنے کی اجازت مل گئی..."وہ اپنے اندر ہمّت مجتمہ کرتی روم کے اندر چلی گئی ..."اور اس نے روم میں آ کر دیکھا تو یہاں تو سب ہی بڑے موجود تھی.."اس کا دل کیا.."وہ الٹے پاؤں واپس بھاگ جائے..."لیکن پھر اس نے اپنے دل کو دپٹ کر شانت کروایا..."اور سب پر ایک نظر ڈال کر اپنی نظریں جُھکا کر سب کو سلام کی..."السلام وعلیکم.."بیک وقت سب نے ہے اسکی سلام کا جواب دیا تھا.."اور اسکی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا.."جیسے پوچھ رہے ہو.."کیا کام ہے...؟جب اس نے اپنے اوپر سب کی نظروں کو محسوس کیا تو اس نے اپنی نظر اٹھائی تھی.."اور سب کو نظرانداز کرتی آغا جان سے مخاطب ہوئی....."آغا جان مجھے آپ سے بات کرنی تھی ....." ہاں بولو کیا کام ہے بچہ.."آغا جان نے اسکو بولنے کی اجازت دی..." و وہ م میں ..."کیا وہ وہ میں میں لگا یا ہوا ہے.."صحیح سے بولو.."شائستہ بیگم نے اپنی بیٹی کو گھورتے کہا .." آغا جان میں آپکے بیٹے سے شادی نہیں کرنا چاہتی.."مجھے وہ نہیں پسند .."اور آغا جان آپ مانیہ کی شادی نعمان سے کر دے کیونکہ وہ دونوں آپس میں محبّت کرتے ہے..."وہ ایک ہی سانس میں اپنی بات بول گئی تھی...."ہر طرف اُسکے بولنے کے بعد خاموشی چھا گئی تھی۔۔"یہ خاموشی آنے والے طوفان سے کم نہیں لگ رہی تھی.."یہ کیا بیہودگی ہے..."شائستہ تم نے اپنی بیٹی کی یہ ہی تربیت کی ہے.."منہ اٹھا کر کچھ بھی بول دے..."اور دوسری تم کون ہوتی ہو بڑوں کے فیصلے میں بولنے والی..."جاؤ جو کام ہے وہ کرو.."ہمارے فیصلہ نہیں بدلنے والا..."اور اب آپ کی رخصتی عید کی شام کی ہے."جاؤ انکی تیاری کرو جا کر میں جرّار سے بات کرتا ہوں اور کہتا ہوں اپنی بیگم کی لگام کھینچے.."بہت ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے یہ لگام اس نے....."آغا جان دھاڑتے بولے ۔۔"اور ایک جان لیوا فیصلہ بھی سنا دیا ساتھ میں....."کیوں آغا جان کیوں...؟ہر بار ایک لڑکی کی پسند نا پسند کیوں نہیں پوچھتے آپ لوگ بس جیسے چاہا وہی اُسکی بھینٹ چڑھا دی..."لیکن میں نہیں کروں گی شادی..." وہ بھی یہ کہتی وہاں سے روتی ہوئی واک آؤٹ کر گئی تھی.....
*****************
وہ منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکیوں کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی"ساتھ ہی ساتھ اپنے روم کی طرف بغیر سامنے دیکھے جا رہی تھی......"جب اُسکی ٹکّر کسی مضبوط جسامت والے شخص سے ہوئی....." آں ں ں......."اُسکا پیر مڑا اور وہ اس شخص کی باہوں میں جا سمائی.." پرفیوم کی خوشبوں سے وہ پہچان گئی تھی کون شخص ہے...اس نے جھت سے آنکھیں کھولیں.."سامنے جرّار ہمدانی تھا۔۔۔۔۔اُسکے وجود میں نفرت کی لہر دوڑ گئی تھی اسکو دیکھ کر....."آج اس شخص کی وجہ سے ہی تو اسکو اتنی سنی پڑی تھی...."اس نے خود کو سنبھال کر جرّار کی باہوں سے دور ہونے کی کوشش کی تھی..."لیکن مقابل کی گرفت اتنی مضبوط تھی کی وہ نکل ہی نہیں پائی۔۔۔۔۔"ہر عورت کو کسی نہ کسی مرد کا سہارا چاہیے ہوتا ہے۔۔اور دیکھو میں نے تمہیں سہارا دے کر گرنے سے بچا لیا...."جرّار نے اُسکے آنکھوں میں جھانکتے کہا تھا......"خوش فہمی ہے آپ کی..."آپنے مجھے سہارا نہیں بلکہ ایک کھائی میں لا پھینکا ہے۔۔۔۔۔"ایک ایسی کھائی میں جہاں سے میں اگر نکلنا بھی چاہو تو یہ معاشرہ، یہ فیملی اور سب سے بڑھ کر تم تین شخص تو بلکل بھی نہیں نکل نے دو گے......"اور پتہ ہے۔۔۔"وہ کون کون ہے۔۔۔۔۔"لسٹ پر پہلا نمبر تو آپ کا ہے.."کیونکہ آپ جو ٹھہرے مرد اپنی مردانگی دکھانے کے لئے..."اور دوسری لسٹ پر آپ کے بابا آغا ہمدانی...."انکا تو مجھ پر اتنا احسان ہے کہ شائد میں میں اپنے آپ کو بیچ کر بھی اتارنا چاہوں تو نہیں اُتار سکتی..."اور تیسرے نبر پر میری خود کی ماں ہے.."جو احسان کے بوجھ تلے دب کر اپنی بیٹی کی زندگی برباد کرنے جا رہی ہے۔۔۔۔"آپ سب کے احسان کے آگے وہ اتنی بےبس ہے کہ اپنی بیٹی کی خوشیوں کا انکو بلکل بھی اندازہ نہیں ہے۔۔۔۔آنکھوں سے آنسوں پھسل کر گالوں پر بہ رہے تھے ۔۔۔ہری کانچ سے آنکھوں میں صرف نفرت ہی نفرت نظر آ رہی تھی...."جو دوپٹہ گلے پر تھا وہ کندھوں پر ایک طرف جھول رہا تھا..."ہائی پونی سے ربّر بینڈ نکل کر کہیں گر گئی تھی اُسکی وجہ سے بال سارے کھل کر کچھ آگے تو کچھ پیچھے لہرا رہے تھے۔۔۔۔۔۔اس حالت میں بھی وہ آسمان سے اُتری کوئی اپسرا ہی لگ رہی تھی..."جرّار کی گرفت تھوڑی ڈھیلی ہوئی."اور اس نے موقع کا فائدہ اٹھاتے جرّار ہمدانی کو پیچھے کی طرف بہت زور سے دھکّا دیا۔۔جس سے وہ ایک قدم کی دوری پر جا کھڑا ہوا۔۔۔لیکن لڑکھڑاہٹ بلکل بھی نہیں تھی..."آپ سب ایک طلاق یافتہ عورت پر اپنے احسانوں کے بوجھ کے نیچے دبا کر میری زندگی برباد کر رہے ہو..."احسان جتانے والے ہو . ہو تم سب احسان جتانے والے ہو ......"وہ روتی ہوئی یہ بولتی وہاں سے دوڑ کر اپنے روم میں چلی گئی....جہاں اُس نے اپنی زندگی کو برباد ہونے پر آنسوؤں کو بہانہ تھا...جرّار کو بلکل بھی اسکی بات سمجھ نہیں آئی تھی۔۔اس لیے وہ بس اسکو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
************************
السلام وعلیکم ...جرّار اپنے بابا کے کمرے میں آیا تھا۔۔وہاں بیٹھے سب ہی نفوس کو اس نے خوش اخلاقی سے سلام کی اور وہی پر بیٹھ گیا....."آغا جان مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی..."اس نے اجازت لیتے پوچھا تھا..."ہاں بولو کیا بات ہے...؟آغا جان دیکھے میں آپ کے فیصلے کے خلاف نا توں کبھی تھا نا ہوں اور انشاءاللہ نا کبھی رہوں گا..."لیکن پھر بھی آغا جان...."میں اپنی دل کی بات آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں...."وہ دراصل بات یہ ہے آغا جان۔۔۔"جب ہمارے گھر میں اتنے لڑکے ہے..."اور اللہ کے شکر سے اچّھے بھی ہے اور انڈیپنڈنٹ بھی..."تو پھر گھر کی لڑکیوں کا گھر سے باہر رشتہ کرنے کی وجہ کیا ہے....؟ اس نے اپنے بابا کی طرف دیکھ کر پوچھا...میں سمجھا نہیں بچہ آپ کیا کہنا چاہتے ہو ۔۔؟ آغا جان نے اُسکے طرف ناسمجھنے کے انداز میں دیکھ کر پوچھا..."بابا سیمپل سی بات ہے.."جب نعمان ہے "تو اپنی مانی کا رشتہ باہر کرنے کی وجہ..."اللّٰہ کے شکر سے ماشاللہ عادت بھی بہت اچھی ہے۔۔۔اور اپنے بابا کا آفس بھی جوائن کر چکا ہے۔۔۔"تو ہم باہر کیوں کر رہے ہیں۔۔۔مانی کا رشتہ.."آپ باہر رشتہ کرنے کا نتیجہ پھپوں کی صورت میں۔ دیکھ چکے ہیں پھر یہ غلطی آپ دوبارہ کیوں دہرانا چاہتے ہے...."بابا میری مانے" مانی "کا رشتہ نومی سے کر دے۔۔۔۔۔بہت خوش رہے گی ہماری مانیہ سچ میں ...."اس نے اپنی بات سمجھاتے اپنے بابا کی طرف دیکھا تھا...."عارف ہمدانی تو بس ایک ٹک اپنے بیٹے کو ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔بابا...سوری اگر میری کسی بات نے آپ کا دل دکھایا ہو.."وہ معازرت کرتے بولا.."نہیں بیٹا..."آپ نے بلکل ٹھیک بولا۔۔۔بھلا کب ہمارے گھر پر بچّے ہے تو ہم باہر کیوں کرے رشتہ.......آپ سمجھ لے طے ہو گیا مانیہ اور نعمان کا رشتہ پکّا.."کیوں عشا میں ٹھیک بول رہا ہوں.."اُن ہونے اپنی بات بول کر اپنے بہنوئی یعنی نعمان کے بابا سے پوچھا تھا.."ہاں ہاں کیوں نہیں بھائی جان آپ نے بلکل درست کہا.."پھر ٹھیک ہے ہو گیا فیصلہ.."تمہارا اور نعمان کا دونوں عید سے اگلے دن رخصتی ہے..."وہ بول کر چپ ہو گئے تھے.."لیکن جرّار کے ہوس اُڑ گئے تھے۔۔۔۔۔بابا میری اتنی بھی جلدی کیا ہے..؟بس آپ ان دونوں کی تیاریوں کا حکم کرے..."وہ بات کو تالتے بولا.."کیوں نہیں ہے..؟گھر کے بڑے بیٹے ہو.."ویسے تو تمہارا اب سے پہلے کر دینا چاہیے تھا۔۔۔لیکن ہم نے نہیں کیا.."پر اب اور نہیں.."اور ہاں اپنی بیگم پر لگام ڈالو اتنی زبان چلتی ہے..."اُنہونے جرّار کو ساری بات بتا کر آخر میں یہ بولا تھا..."جرّار وہاں سے خاموشی سے کھڑا ہو گیا تھا.."اور اپنے روم میں چلا گیا..
************************
قسط6
.........
رشتہ طے ہونے کی نیوز پورے ہمدانی ویلا میں ہوا کی طرح پھیل گئی تھی.."مانیہ تو اللہ کا شکر ادا کرتی کرتی نہیں تھک رہی تھی۔۔۔۔جب سے اسکو پتہ چلا تھا۔۔ماشاللہ وہ بلکل ٹھیک ہو گئی تھی "آج کئی دنوں بعد وہ اپنے روم سے نکلی۔۔وہی خوش باش سی مانیہ...."وہ اپنی پلٹن کو ڈھونڈتی باہر گارڈن میں آ گئی...."کہاں ہو بھئی تم سب...؟وہ آوازیں دیتی گارڈن میں دیکھ نے لگی..."اُسکے نظر لابی میں گئی.."جہاں اسکو اپنی پلٹن نظر آئی.."وہ وہی چلی ائی.."السلام وعلیکم..."اس نے زور دار آواز میں سب کو سلام کی ..."سب نے پیچھے مڑ کر دیکھا.."جہاں سفید گھٹنوں تک آتے فراک اور بلیک جینز میں وہ بلکل تازہ دم لگ رہی تھی..."ارے ے ے ے..."مس پرفیکٹ"ارمان پرجوش سا ہو کر بولا..." سب کے چہروں پر ہی مانیہ کو دیکھ کر خوشی چھا گئی تھی..."آؤ آؤ بھئی ویلکم تو بیک انوشے پلٹن...."انوشے کے نام پر سب ہی اُداس ہو گئے تھے.."جو مانیہ کی آنکھوں سے منفی نہیں رہا تھا......"تھنکس..."انوں کہاں ہے"کہی دکھائی نہیں دے رہی.." اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے اس نے سب سے پوچھا تھا..." ارمان جواب دیتا بولا.."وہ اب ہمارے ساتھ نہیں رہتی..."بہت اُداس رہنے لگی ہے وہ .."نہ کسی سے بولتی ہے.."بس روتی رہتی ہے۔۔۔اور نہ ہی کسی کو اپنی اُلجھن بتاتی ہے..."سب نے باری باری مانیہ کو بتایا تھا..."مانیہ یہ سنتے ہی الٹے پاؤں انوشے کے روم کی طرف بھاگی تھی...."پیچھے سے ارمان اسکو آواز دیتا ہی رہ گیا..."مس پرفیکٹ"سنو تو...."لیکن وہ اب کہاں سن نے والی تھی..."کیونکہ اس کی دوست بہن پریشان تھی.."تو وہ کیسے کسی اور کی بات سن لیتی....
***********************
آخر تم چاہتی کیا ہو۔۔؟ کیوں میری آنکھوں میں تمہیں اپنا عقس نہیں دکھتا..؟"کیوں تم مجھ سے اتنی نفرت کرتی ہو...؟کیوں تم مجھے محسوس نہیں کرنا چاہتی.....؟وہ بالکونی میں کھڑا انوشے سے دل ہی دل میں سوال کر رہا تھا...."ڈھیلی سی شرٹ،اور کھلا ٹراؤزر ماتھے پر بکھرے بال.."وہ اس میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا..."گرین آنکھوں میں اُداسی تھی.."اسکو یاد نہیں پڑتا کب وہ انوشے خلیل سے اتنی محبّت کرنے لگا تھا.."کہ اگر وہ اس سے دور ہونے کا خواب میں بھی سوچتا تو اسکی سانسیں اکھڑنے لگتی..."ضروری تو نہیں ہر لفظ لبوں سے ہی ادا کیا جائے..."کبھی کبھی محبّت تو انداز سے ہی چھلک جاتی ہے..."کیوں انوشے تم خود کو بھی اور مجھے بھی اس اذیت میں ڈال رہی ہو...؟مجھے تمہاری نفرت سب منظور ہے.."لیکن میں تمہیں خود سے دور نہیں کر سکتا۔۔۔"میں ساری زندگی ایسے ہے تمہارا انتظار کر نے کو تیار ہوں "لیکن یہ اذیت تو مت دو..."اس نے قرب سے آنکھیں بند کر لی.."تھی اور پھر آسمان کی طرف اپنا چہرا اُٹھایا..."اس کالی سیاہ رات میں آسمان میں چمکتا چاند ٹھندی ٹھندی چلتی ہوائیں.."اگر اور کوئی دن ہوتا تو ضرور وہ اس موسم کو انجوائے کرتا.."لیکن آج اُسکا بلکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا.."جب سے آغا جان نے اسکو انوشے کی بات بتائی تھی.."جب سے اسکا سکون کہی کھو سا گیا تھا....مجھے بات کرنی ہوگی.."ہاں مجھے انوشے سے بات کرنی چاہیے..."اور پھر کافی دن بھی تو گزر گئے اس مغرور" ہارٹ وچّ "کو دیکھیے۔۔۔اس ہی بہانے ہارٹ وچّ کا دیدار نصیب ہو جائے گا۔۔"وہ یہ سوچتا اپنے روم سے نکلتا"انوشے کے روم کے جانب چل دیا......
************************
کیوں نہیں سمجھتے وہ لوگ مجھے نہیں کرنی شادی..."مجھے نہیں ضرورت شادی کی "مانیہ تم تو مجھے جانتی ہو نا.."کیا تم چاہو گی کہ میری زندگی بھی ماما کے طرح برباد ہو جائے..."مانی مجھے خوشی ہے۔۔۔"تمہاری شادی نومی سے ہو رہی ہے۔۔۔"لیکن تم دونوں کی محبّت کی شادی ہے یہ.."لیکن ہمارے بیچ تو کوئی بھی رشتہ نہیں.."محبّت کبھی ہم دونوں کو ایک دوسرے سے ہو نہیں سکتی۔۔۔"نا تو ہم دونوں کے مزاج ملتے ہے اور نا ہی عادت۔۔۔"پھر کیسے کر لوں میں شادی.."مجھے مرد کی ضرورت نہیں ہے ۔۔"بلکہ مجھے کسی سے بھی شادی نہیں کرنی.."پھر یہ لوگ میرے پیچھے کیوں لگے ہے..." میری زندگی ہے.."مجھے جینا ہے نا کہ اُن لوگوں کو..."اور میں سچ بتا رہی ہوں اگر کسی نے بھی میرے ساتھ زور زبردستی کی نا تو میں خودکشی کر لوں گی.."پھر کرواتے رہنا انوشے خلیل کی میّت سے شادی۔۔۔اور خوش کر دینا اپنے بھائی کو "وہ آخر میں ہچکیوں سے رونے لگی تھی...."لیکن کیوں ..؟کوئی تو وجہ ہوگی..؟کیا بھائی نے کچھ کہا ہے تمہیں...؟ مانیہ نے اُسکو کندھوں سے تھام کر بیڈ پر بٹھایا تھا اور اسکو پانی کا گلاس تھماتے پوچھا تھا.."ہیں نا وجہ.."بہت بڑی وجہ ہے.."پہلی بات تو میرا نکاح بچپن میں کر دیا.."جبکہ میں بچپن کی شادی کے خلاف ہوں.."دوسرا مجھے ایسے مرد بلکل نہیں پسند جو عورت پر بن وجہ کی روک ٹوک رکھے..."اور تیسری اور آخری وجہ میں خود ہوں.." میں دنیا کے کسی بھی مرد سے شادی کر نے کے لئے تیار ہوں.."لیکن تمہارے بھائی سے نہیں۔۔کیونکہ تمہارا بھائی ایک انا پرست اور احسان جتانے والوں میں شامل ہے.."جو کچھ کرتے نہیں کہ پہلے اپنے احسان گنوانے لگ جاتے ہیں...."مانیہ اگر تم میرا حال احوال پوچھنے آئی ہو توں ٹھیک اور اگر اپنے بھائی کی وکالت کرنے آئی ہو تو پلز مجھے یہ لیکچر مت دینا۔۔"جن کو میں برداشت بھی نا کر پاؤں..."میں طلاق تو لے کر رہوں گی.."یہ میرا آخری فیصلہ ہے...و"اور تمہیں کیا لگتا ہے میں اس ایک شخص کے لیے اس روم میں بند ہو کر رہ جاؤں گی.."تو یہ بھول ہے.."کیونکہ انوشے خلیل کبھی نا تو چھپ کے کچھ کرتی ہے.."اور نا ہی کسی کے لیے اپنی زندگی داو پر لگاتی ہے..."میں صرف اپنی زندگی ان لوگوں کے لیے داؤ پر لگاتی ہوں۔۔"جن کا میری زندگی میں کوئی اہمیت ہوتی ہے..."جیسے کہ تم.."لیکن اس شخص کے لیے نہیں"جن سے میں بے انتہا نفرت کرتی ہوں..."وہ ہر لفظ چبا چبا کر بول رہی تھی.."وہ اپنے آپ کو سنبھال چکی تھی.."اس نے ارادہ کر لیا تو اب وہ نہیں روئے گی.."چاہے کچھ بھی ہو جائے.."مانیہ اُسکا اٹل ارادہ دیکھ کر کچھ نہیں بولی تھی..."بائے دا وے"تم ٹینشن مت لو.."یہ میری ٹینشن ہے.."بس تم اپنی شادی کو انجوائے کرو.."مجھے پتہ ہے مجھے کیا کرنا ہے..."بس تم نومی اور اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں سوچو..."بھئی لو میرج ہے...."وہ بات کو بدلتے خوشگوار لہزے میں بولی تھی........"اچھا یہ بتاؤ شاپنگ کب سٹارٹ کرنی ہے.."بھئی دن کم رہ گئے اور کام اتنا زیادہ.."میرا خیال ہے.."ہم کو آج شام میں پلان ترتیب دے دینا چاہئے.."وہ آنکھوں میں شرارت لئے.."مانیہ سے بولی تھی..."اُسکے بات کا مفہوم سمجھتے مانیہ کے چہرے پر رنگ گلال چھانے لگے..اس نے شرم سے اپنی نظریں جُھکا لی.."اوۓ ہوئے۔۔ بڑا شرمایا ورمایا جا رہا ہے.."اگر نومی ہوتا نا.."سچ میں تمہاری شرم سے دہکتے اس مکھڑے کو دیکھ کر ضرور کچھ نا کچھ کر بیٹھتا..."اب کی بار انوشے نے اسکو کوہنی مار کر چھیڑا تھا.."اُسکے بات پر مانیہ بیچاری تو شرم سے پانی پانی ہو گئی تھی......"دیکھنا ایک دن میں بھی تمہیں ایسے ہی چھیڑوں گی..وہ اس پر تکیوں کی بارش کرتی بولی تھی اور پھر روم سے باہر بھاگ گئی تھی..."انوشے اپنا بدلہ لینے کے لئے اُسکے پیچھے بھاگ رہی تھی.."اب سچویشن ایسی تھی مانیہ آگے آگے اور اُسکے پیچھے انوشے دوڑ رہی تھی..."مانیہ بھاگتی ہوئی پیچھے لان میں آ گئی.."اور چُھپ کر انوشے کو دیکھنے لگی.."مقصد انوشے کو ڈرانے کا تھا.."جب اس نے اپنے کندھوں پر کسی کے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا وہ ڈر کر جیسے ہی پلٹی نعمان کو اپنے سامنے دیکھ کر شرم سے اُسکے آنکھیں خود بخود جُھک گئی،دل کی دھڑکن بڑھ گئی .."اُسکی اس ادا کو نعمان نے اپنی آنکھوں میں محفوظ کیا اور ایک ٹک مانیہ کو دیکھتا رہا.."کتنے دنوں بعد اس نے دیکھا تھا اسکو.."آنکھیں ترس گئی تھی اُسکی.."لیکن وہ اپنے اندر ہمت نہیں کر پا رہا تھا.."اس دشمن جان سے ملنے کے.."وہ اُسکی نظروں سے کنفیوزڈ ہوتی وہاں سے جانے لگی جب نعمان نے اُسکی کلائی کو اپنی گرفت میں لیا.."اور اسکو اپنی طرف کھیچا.."جس کا نتیجہ یہ نکلا مانیہ کا توازن بگڑا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے اوپر جا گرے....ہائے اللّٰہ..."مس پرفیکٹ"کتنی موٹی ہو تم.."مجھ بیچارے کو تو اللہ ہی بچائے..."وہ اپنی ہنسی دباتا مانیہ کی طرف دیکھ کر بولا تھا..."مانیہ جو اپنی چھیمپ مٹانے کے لیے ہلکان ہو رہی تھی.."اُسکی بات کو سن کر اس نے ایک غصّے سے بھری گھوری سے نوازہ اور پھر ناراض ہوتی کھڑی ہونے لگی.."جب نعمان نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسکے اٹھنے کی ساری کوشش ناکام کرتے بولا..."ہائے میری سونا ناراض تو مت ہو..."نہیں کہتا کچھ..."پتہ ہے مانی میں بہت ٹوٹ گیا تھا.."مجھے لگا تم مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور ہو جاؤ گی.."میں اتنا ڈر گیا تھا کہ مجھ میں بلکل بھی ہمت نہیں رہی تھی تمہارا سامنا کرنے کی.."لیکن میں تم سے بہت محبّت کرتا ہوں.."میں نے راتوں کو آٹھ کر اپنے رب سے تمہیں مانگا ہے..."اور دیکھو اللّٰہ نے سن لی"اور اب ہمارا نکاح ہونے والا ہے..."وہ ایک جذب سے مانیہ کو بتا رہا تھا بلکہ اپنی محبّت کا اظہار کر رہا تھا۔۔۔۔۔وہ دونوں ایک دوسرے میں اتنے کھوئے ہوئے تھے کہ انکو اپنی پوزیشن کا احساس بھی نہ رہا......"آہم مم........اگر تم لوگوں کی عشق ماشوقی ختم ہو گئی ہو تو یہ بچّی بھی ادھر اپنا چہرا کر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔انوشے نے ان دونوں پر طنز کرتے کہا ...."انوشے کی آواز پر وہ دونوں حقیقی زندگی میں واپس لوٹے اور ستپٹاتے ہوئے کھڑے ہو گئے..."بیچاری مانیہ کا تو شرم سے بُرا حال تھا...."ہ ہاں "ارے انوشے تم یہاں..."نعمان اپنی خفت مٹاے بولا۔۔۔"انوشے نے ان دونوں کی طرف اپنا چہرا کیا.."اور پھر اُن دونوں کو دیکھ کر بہت زور زور سے ہنسنے لگی۔۔۔۔۔ھاھاھاھاھاھاھاھاھاھا.تم دونوں اپنا چہرا دیکھو..."ھاھاھاھا..."تمہیں یہی پر رومانس کرنے کو ملا تھا..."انتظار نہیں ہوا.."دس دن ہی تو رہ گئے ہے۔۔۔۔"پھر......" ھاھاھاھاھاھا......."اور نومی کے بچّے یہاں تو بڑے بڑے فلسفے جھاڑے جا رہے تھے..."اس دن کہاں گئے تھے..."جب آغا جان نے اس خوتی کا رشتہ طے کر دیا تھا...."وہ تو بھلا ہو اس نیک انسان کا.."جس اپنی ہمت کا مظاھرہ کر کے آغا جان سے کے ڈالا..."آغا جان نعمان اور مانیہ ایک دوسرے سے محبّت کرتے ہے.."اور آپ ان دونوں کی شادی کروا دیجئے......"انوشے آج نعمان کو بھگو بھگو کر مارنا چاہتی تھی..."اور کرتی بھی کیوں نا آخر موقع تھا...."بس بس رہنے دے انو..."کیوں میری فیوچر بیوی کو لال ٹماٹر کرنے پر لگی ہے..."بیچاری کہی شرماتی بلکل ٹماٹر ہی نا بن جائے..."نعمان نے مانیہ کی طرف آنکھ مارتے کہا تھا..."جس پر انوشے اور نعمان میا کا کہکا بلند تھا...."ھاھاھاھا........ مانیہ اُن دونوں کو گھورتی وہاں سے پیر پٹکتی چلی گئی تھی....."دیکھو ناراض کر دیا نا.."اب دیکھنا شادی کی رات کیا حال کرتی ہے وہ تیرا بیٹا بچ کر رہنا..."پہلے ہی ہوشیار کر رہی ہوں تمہیں.."ورنہ پھر مجھے مت بولنا بتایا نہیں تھا..."وہ نعمان کو ڈراتے بولی..."اوۓ..." مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے توں میری بیوی "فیوچر وائف بولو"انوشے نے اُسکے بات درمیان میں کاٹتے اسکو یاد دلایا.."ہاں ہاں وہی.."میرے خلاف کرنے کی کوشش کرو گی ..."وہ آنکھوں کو چھوٹی بڑی کرتے بولا.."حد ہے ویسے "میں تمہیں ایسی لگتی ہوں..."ایک کام کرتی ہوں میں تر جیسے شک سے بھرے انسان سے اپنی جان سے پیاری دوست کا رشتہ کینسل کرتی ہوں..."کیا پتہ تیرا.."توں اس پر بھی شک کرنے لگے...." نا نا ایسا ظلم مت کرنا.."رہنے دو ڈرامے باج..." چلو نہیں کرتی یہ ظلم لیکن اس کے بدلے تمہیں مجھے شاپنگ کروانی ہوگی..."یہ تو مجھے پتہ تھا تم لالچی ہو.."لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ تم اموشنل بلیک میلر لالچی بھی ہو.."نعمان کے سے پر آج ارمان کا بھوت سوار تھا.."اس لئے ہی تو بات بات پر وہ ڈراما کر رہا تھا..."تھنکس..."میں ایسی ہی ہوں.."اب تمہیں ایسے ہے کام چلانا پڑے گا.."کیونکہ اب میرا دو دو رشتے ہے تمہارے ساتھ ایک تو کزن کا اور دوسرا.."سالی صاحبہ کا.."بچ کر رہنا..."اور ہاں تیار بھی رہنا۔۔۔۔شام میں روزہ افطار کے بعد شاپنگ پر لے جانے کے لیے.."وہ وارننگ دیتی وہاں سے چلی گئی.."اور پیچھے ہمارے نعمان صاحب آہستہ سے بولے .."جہنم میں ہیں نس لے جاؤں..."آہستہ تو اسلئے بول تھا.."بیچارے کو ڈر تھا نا.."کہیں سن ہی نا لے.."اور ایک نئی شامت نا آ جائے اُسکی..."میں یہاں کیا کر رہا ہوں.."چل بیٹا نعمان لگ جا پیسیوں کا انتظام کرنے کے لئے."کیونکہ یہ بھوتنی بیس تیس ہزار سے پہلے تو مجھے چھوڑنے والی نہیں۔۔۔۔۔اس لیے کنگال ہونے کے لیے ریڈی ہو جا۔۔۔وہ بھی وہاں سے چلا گیا تھا....
**********************
السلام وعلیکم خالہ جان.."خالہ جانی"آپکی بلیک میلر بھوتنی کہاں ہے...."انوشے جو ڈریسنگ روم سے باہر آ رہی تھی وہ سن چکی تھی اپنی شان میں تعریف..."بیٹا.."اچّھا بچوں.."یہ چلتا ہے میری پیچھے..."آج خیر نہیں تیری.."انوشے اپنی آستینوں کو چڑھاتے بولی..."و وہ میں تو خالہ جانی سے یہ بول رہا تھا کہ انوشے بھابی کہاں ہے...؟ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے روانی میں الٹا بول گیا تھا..."کیا کہا تم نے..؟ بھابی."نعمان کے بچّے آج لکھ لو تم مجھ سے نہیں بچ نے والے... لیکن میری تو ابھی شادی نہیں ہوئی.."کیونکہ ابھی شادی میں نو دن باقی ہے.."پھر میرے بچّے کہاں سے ہوئے..نعمان نے آنکھیں پٹ پٹا کر معصوم سا چہرا کیے انوشے سے کہا تھا.."اُسکے بات پر شائستہ بیگم کا کہکا بیختیار تھا ھاھاھاھا..."کیا خلہ جان آپ ہنس رہی ہے.."مجھ معصوم کی جان سلی پر چڑھی ہوئی ہے.." اور ہاں لکھ نے کے لئے ابھی میرے پاس پین نہیں ہے.."تو پھر میں لکھونگا کیسے...؟ ایک بار پھر اُسکے زبان میں کھجلی ہوئی تھی..."وہ اپنی بات بول کے انوشے کی طرف دیکھنے لگا....انوشے کا غصّہ ساتویں آسمان کو چھوتا نظر آیا تو وہ یہ بول کر روم سے باہر بھاگا تھا"اوہ سوری.."آئندہ نہیں بولوں گا.." سوری کے بچے.."آج تم نہیں بچنے والے..."سوری میری پیاری بہنا.."ایک بار معاف کے دو.."پھر میں تمہیں شاپنگ کرواونگا.."اور ایک بہت اچھا سا ڈنر بھی کرواونگا.."سچ میں وہ اپنی جان بچانے کے لیے اس نے انوشے کے سامنے ایک آفر بھی رکھ دیا.."آفر کو سن کر انوشے کے قدم روکے تھے...."پلز پلز"کر دو معاف آئندہ سے میں ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گا..."وہ بظاھر تو اسکو بول رہا تھا ۔"لیکن دل میں وہ انوشے کو بہت کچھ سنا کر اپنی بھڑاس نکال رہا تھا..."ٹھیک ہے جاؤ کیا یاد کروگے.."کہ تمہارا زندگی میں کسی انوشے خلیل سے بھی پالا پڑا تھا.."معاف کیا تمہیں .."وہ احسان سا کرتی بولی.."لیکی۔ یاد رکھنا یہ میرا آخری احسان ہے.."اگر یہ غلطی دوبارہ کی نا تو کبھی پھر مجھ سے اس احسان کیا توقع مت کرنا...."وہ آگے کے لیے اسکو وارننگ دیتے بولی..."ٹھیک ہے کبھی نہیں کروں گا.."میں ضرور کروں گا"وہ اپنے دل میں سوچتا بولا..."اچھا اب جب تم نے ڈنر کی آفر کر ہی دی ہے تو میں تمہاری آفر جایا نہیں جانے دوں گی.."میں ابھی آتی ہوں پلٹن کو بلا کر جب تک تم گاڑی نکالوں.."وہ حکم صادر کرنے وہاں سے چلی گئی..."ہنننننننننننن.."حکم تو ایسے سناتی ہے جیسے میں اس کا نوکر ہوں.."وہ اپنی شکل کو ٹیڑھا میڑھا کرتا گاڑی نکلنے چلا گیا۔۔چاہے کچھ بھی تھا لیکن حکم تو اسکو ماننا ہی تھا.."کرتا نا کیا کرتا بیچارے کو جانا ہی پڑا تھا....
********************